گلابوں سے ڈھکی تیری یہ اُٹھتی جوانی۔ سنگ مر مر سے تراشہ ہوا تیرا یہ شفاف بدن ۔ آنکھ اُٹھتی ہے تیری تو مہبت میری انگڑائی لیتی ہے۔ تیرے سینے کا زیر و بم دھڑکنیں میرے دل کی بڑھاتا ہے۔ تم جو چلتی ہو تو زمانہ چلتا ہے اور رُک جایئں جو تیرے قدم تو تھم جاے زمانہ۔ تم اجنتا کی ایک مورت ہو۔ تم سوز ہو تم ساز ہو تم مدھر گیت کی ایک میٹھی تان ہو۔ تم صبح کی تازہ ہوا کا جھونکا ہو۔ تم شبنم کے قطروں کی طرح نرم اور کومل ہو۔ تم کیا ہو یہ پتہ نہیں ہے مجھے مگر میں جانتا ہوں کہ تم میرے دل کی دھڑکن ہو۔